دانستہ مذہبی گستاخی صرف سستی شہرت کا حصول

  کسی بھی مذہب میں کسی دوسرے مذہب کی مقدس کتابوں اور شخصیات کی توہین اور تذلیل کرنے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں ہوتی ہے ، نہ ہی...

1950 0
1950 0

 

کسی بھی مذہب میں کسی دوسرے مذہب کی مقدس کتابوں اور شخصیات کی توہین اور تذلیل کرنے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں ہوتی ہے ، نہ ہی وہ مذہب و ادیان اپنے ماننے والوں کو ایسی غیر مذہبی گستاخانہ حرکتوں کی ترغیب دیتی ہے کہ جس سے مذہبی تصادم و جنگ کا خطرہ لاحق ہو جائے ۔ اور بنی نوع انسان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنکر قتل و غارتگری کے ذریعے انسانیت کی تحقیر کریں ۔ لیکن ان تمام مذہبی پابندیوں اور روک تھام کے باوجود بھی انبیاء کرام علیہم السلام کی شان میں توہین آمیز واقعات کا رونما ہونا اب ایک معمول بن چکا ہے ۔

اس کی سب سے بڑی وجہ مغربی ممالک ہیں جہاں آزادی اظہار کے نام پر مذہب اور مقدس مذہبی شخصیات کی توہین کو سنگین جرم میں شمار نہیں کیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز یورپ میں اسلامو فوبیاں کی انتشاری بیماری میں مبتلا لوگ کبھی توہین قرآن کرتے ہوئے نظر آئیں گے تو کبھی آخری نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کر رہے ہونگیں ۔ کاش یورپ کا کلیسا اور پوپ اس توہین مذہب کے معاملے میں اپنا دینی فریضہ انجام دیتا تو اسکی بیخ کنی کی جا سکتی تھی لیکن یورپ میں اسلامو فوبیاں کے ہاتھوں پوپ بھی یرغمال بن چکے ہیں ۔ جبھی اِس حساس مذہبی معاملات میں انکی مجرمانہ خاموشی انکے غیر فعال ہونے کی نشاندھی کرتی ہے ۔ یورپ ویسے تو ہر جرم پر سزا دینے کا قائل ہے تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو لیکن دین اسلام کے نام پر فالج زدہ ہو جاتا ہے ۔

یورپ کی ہی تقلید کرتے ہوئے پاکستان میں سستی شہرت اور یورپی ممالک میں پناہ و شہریت حاصل کے خواہش مند کچھ ناسور بھی کبھی قرآن کریم کو نذرِ آتش کرتے ہیں تو کبھی خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں توہین آمیز کلمات کہتے ہیں تو کبھی خود ہی پیغمبر و داعیان اسلام بن جاتے ہیں ۔ ایسے تمام عناصروں کی سیاستدانوں اور انکی لولی لنگڑی جمہوری حکومت نے ہر دور میں حوصلہ افزائی کی ہے ۔ اور یورپ کے دباؤ میں آکر میں ایسے سفاک مجرموں کو محفوظ راستہ دیتے ہوئے بیرون ملک بھگاتا رہا ہے ۔ یہی وہ سیاسی غلطی ہے جس کا خمیازہ پاکستان میں دین اسلام کے ماننے اور چاہنے والے بھگت رہے ہیں ۔ حکومت پاکستان عالمی سطح پر اپنے مذہبی مؤقف اور دینی اقدار کے تحفظ میں ناکام رہی ہے اس کا بھرپور فائدہ ایسے ناسوروں نے اٹھایا ہے۔

 

اگر پاکستان میں آئین و دستور کی بالادستی قائم ہوتی تو عدالت اور اس میں نشست پر بیٹھے گونگے شیطان جسٹس صاحبان نے کسی نہ کسی توہین مذہب و گستاخیِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتکب مجرموں کو پھانسی دے کر باقی بچ جانے والے دیگر مجرموں کو واضح پیغام دے دیتے کہ اگر کسی نے بھی دین اسلام کی مقدس شخصیات کے بارے میں گستاخی کی تو اس کا انجام بھی ایسا ہی ہوگا نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت ہمارے لئے زندگی و موت کی سرخ لیکر ہے جس نے بھی اسے جان بوجھ کر یا نادانستہ عبور کیا تو اسکی سزا صرف اور صرف موت ہے ۔ اور ایسا ہی سخت ترین جواب یورپ کی آزادی اظہار رائے کی قبر کھودنے کے لئے کافی ہے ۔

دین اسلام کے نام پر بننے والا ملک پاکستان میں ہی دین اسلام ، حرمت قرآن ، ناموس صحابہ و رسالت گستاخوں کے ہاتھوں غیر محفوظ ہے اور آئین پاکستان میں 295C کا قانون موجود ہونے کے باوجود بھی مغربی دلالی جمہوری حکومت اس پر عملدرآمد کرانے کے بجائے حیل و حجت سے کام لے رہی ہے جس سے نہ صرف ملک میں مذہبی اشتعال بڑھ رہا ہے بلکہ مذہبی خانہ جنگی کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے ۔چنانچہ حکومت اور وفاقی مذہبی اداروں کو چاہئے کہ وہ ملک کا امن و امان خراب کرنے کی بجائے ایسے غلیظ عناصروں اور انکے سہولت کاروں کو قرار واقعی سزا دی جائے ۔

چہ جائیکہ کہ پنجاب اِس گستاخانہ واقعات کے معاملات میں ہمیشہ سر فہرست رہا ہے کبھی عیسائی بھونکنے لگتے ہیں تو کبھی کوئ ملحد کھڑا ہو کر گستاخی کر دیتا ہے تو کبھی میرا جسم میری مرضی کی نرسری سے پیدا شدہ عورت نبوت کا دعویٰ کر دیتی ہے ( جب کہ خاتون فیصل آباد کے پوش علاقے کی ہے جہاں کے رہاہش پزیر ویسے بھی مذہب سے بیزار لوگ ہیں صرف ان سب کا نام مسلمانوں جیسا ہے لیکن حرکتیں حرامیوں جیسی ہیں ) تو کبھی کسی خارشی قادیانی کتے کے لے پالک کو کھجلی ہونے لگتی ہے ، تو کبھی کسی حرام نسل گورنر اور وزیر کو گستاخی کا بواسیری کیڑا کاٹنے لگتا ہے ، پنجاب میں اگر اِس گستاخی کی نرسری کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے تو پھر صدیوں کسی میں جرات نہیں ہوگی کہ وہ جان بوجھ کر عبرتناک موت کو گلے لگائے ۔

المخلص
حنفی اُردو جماعت
دارالحکومت کراچی سابق
واٹس اپ نمبر ، 03108545499

تحریر کنندہ ، سید محمد شفیع قادری رضوی

۲۴ رمضان ۱۴۴۴ ، 15 اپریل 2023

 

In this article

Join the Conversation