سالانہ گداگر اجتماع

  عالمی یتیم خانہ سابقہ عروس البلاد کراچی میں گداگروں کا سالانہ اجتماع شروع ہوچکا ہے جس میں ملک بھر کے طول و عرض سے شرکت کے لئے...

582 0
582 0

 

عالمی یتیم خانہ سابقہ عروس البلاد کراچی میں گداگروں کا سالانہ اجتماع شروع ہوچکا ہے جس میں ملک بھر کے طول و عرض سے شرکت کے لئے پیشہ ور گداگر اور جرائم پیشہ عناصر جوق در جوق ٹرکوں ، بسوں ، ویگنوں ، ٹرینوں اور پیدل سفر کر کے کراچی پہچنا شروع ہوگئے ہیں، اِن عظیم لوگوں نے کراچی بھر کی سڑکوں ، فٹ پاتھوں ، خالی میدان ، پل کے نیچے اور گرین بیلٹ پر اپنا خیراتی خیمہ لگانا شروع کردیا ہے ۔ اس نازک صورتحال پر مقامی پولیس کی جانب سے بھرپور تعاون کا مظاہرہ کیا جارہا ہے جو کہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ صرف لباس کی تبدیلی ہے ورنہ اندر سے غیر مقامی پولیس اہلکار بھی پیدائشی فقیر ہی ہیں ۔

ملک بھر سے آئے ہوئے اِن معزز جرائم پیشہ عناصروں اور جدی پشتی بھیک منگوں کے اعزاز میں کراچی کی مقامی فلاحی تنظیمیں جن میں چھیپا ، سیلانی ، ایدھی فاؤنڈیشن اور جے ڈی سی کراچی بھر کی سڑکوں اور چوراہوں پر بوفے افطار ڈنر اور بوفے سحری کا بھرپور اہتمام کرتی ہے ۔ تاکہ یہ درندہ صفت وحشی دن بھر ڈکیتیاں اور بھیک مانگ کر تھک جائیں تو انواع و اقسام کے ذائقہ دار کھانوں سے لطف اندوز ہوں ۔ کیونکہ اہلیان کراچی کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب اِن پردیسی گداگروں کا ہی ہے ۔ جسے کراچی کی فلاحی تنظیمات گداگروں اور جرائم پیشہ عناصر کی خدمت میں سر انجام دیتی ہے ۔ جبکہ ایک معروف فلاحی تنظیم کا سربراہ جو اہلیان کراچی کا چندہ اور عطیہ کے نام خون چوس لیتا ہے وہ ٹی وی چینل اور شوشل میڈیا پر پوسٹ چلوا رہا ہے ایک ایک گداگر صرف ایک ماہ میں کراچی سے دس لاکھ روپیہ بھیک مانگ کر جمع کرتا ہے اور عید کی نماز میں آخری دھاڑی مار کر سب راضی خوشی گاؤں واپس چلے جاتے ہیں ۔

جناب عالی ایسا ہے ہمارا کراچی ، لگ بھگ تین کروڑ کی آبادی کراچی کی ہے لیکن کراچی کی مقامی فلاحی اداروں کو کراچی کے عزت دار سفید پوش مہاجر گھرانہ آج تک نظر ہی نہیں آیا ہے کیونکہ اِن سفید پوشوں کی مدد کرتے وقت فوٹوگرافی نہیں کی جاسکتی ہے نہ شوشل میڈیا پر پوسٹ لگایا جا سکتا ہے نہ ہی انکا نام تشہیر کے لئے استعمال ہو سکتا ہے نہ ہی ادارے کی گاڑی سے راشن کی فراہمی ممکن ہے کیونکہ قوی گمان ہے یہ عمل عزت نفس کو شدید مجروح کر دیگی ۔ کیونکہ مہاجر سفید پوش خاندان خود کو مدد کے نام پر رسوا کبھی نہیں کرینگے ۔ جبکہ اِن تجارتی فلاحی اداروں کا اصل مشن ہی یہی ہے کہ ” جو دِکھتا ہے وہ بکتا ہے” ورنہ کراچی کے دولت مند حضرات چندہ نہیں دینگے جو کہ کاروباری نقصان کے زمرے میں آتا ہے ۔

ویسے اب تو بھیک مانگنا ملکی صعنت میں منافع بخش کاروبار کا درجہ رکھتا ہے ۔ اور خاندانی سیاسی گداگر بھی اکثر و بیشتر عمدہ لباس زیب تن کر کے بیرون ملک جاکر مہنگے ترین ہوٹلوں میں ٹھہر کر غیر ملکی سربراہان مملکت سے بھیک ہی مانگتے ہیں ۔ اور پوری قوم کے منہ پر بدنامی کا کالک ملنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ اِن سیاستدانوں نے اگر اپنی اپنی صوبائی حکومتوں میں اپنے لوگوں کو بہتر روزگار کے مواقع فراہم کیا ہوتا تو آج شہر کراچی کی یہ درگت نہ ہوتی ۔ کراچی اب ڈکیتوں اور لٹیروں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے جہاں سے ان ناپسندیدہ عناصر کو نکالنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے

 

آہ میرا زخمی شہرِ کراچی ! جو گداگروں اور ڈکیتوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے جہاں مسجد سے لیکر قبرستان تک اور عوامی سفری ٹرانسپورٹ سے لیکر شاپنگ مال تک سب پر یہ غیر مقامی گروہ قابض ہو چکا ہے ۔ کراچی کو سندھ کے حکمران طبقہ نے گاؤں بنا دیا ہے اور اِس شہری گاؤں نے کچے کے علاقے کی شکل اختیار کرلی ہے جہاں قانون کی بالادستی دور دور تک نظر نہیں آتی ہے کیونکہ پیشہ ور گداگروں اور ڈکیت راج کا اپنا قانون اور نظام کراچی میں نافذ ہے ۔ کیونکہ ہر سرکاری ادارہ ایمانداری کے ساتھ اپنا اپنا حصہ اِن جرائم پیشہ عناصروں سے وصول کرکے خاموشی اختیار کر لیتا ہے ۔ کراچی کو اگر ان غیر مقامیوں کی بڑھتی ہوئی چیرہ دستیوں سے بچانا ہے تو پھر ہر کاروباری انکی مالی مدد کرنا بند کر دے یہی بہترین حل ہے خود کو بچانے کا ۔
المخلص
حنفی اُردو جماعت
دارالحکومت کراچی سابق
واٹس اپ نمبر ، 03108545499

تحریر کنندہ ؛ سید محمد شفیع قادری رضوی

۲۴ شعبان المعظم ۱۴۴۴ ، 14 مارچ 2023

In this article

Join the Conversation